https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

UK Visit 2022 Episode 9

آج مورخہ 28 جولائی بروز جمعرات اس عاجز کے سفر کا دوسرا دن تھا آج کے دن کا اہم پروگرام مغرب کی نماز کے بعد اولڈ ٹریفورڈ کی ایک معروف اور بڑی جامع مسجد نور میں تھا البتہ دن میں کچھ انفرادی ملاقاتیں کرنا اورحافظ محمد صاحب کے ہمراہ ان کے والدین مولانا عبدالغنی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قبور پر حاضری کیلئے قبرستان جانا تھا، فجر کی نماز اور معمولات سے فارغ ہوا تو حافظ محمد صاحب کہنے لگے کہ حضرت آج ہم نے قبرستان جانا ہے پھر اس کے بعد شام کے پروگرام تک ہمارے پاس کافی وقت ہوگا، میرے دل میں یہ بات آ رہی ہے کہ اس دفعہ آپ کا ہمارے پاس یہاں اولڈ ٹریفورڈ میں قیام بھی صرف دو دن کا ہے پھر آپ دوسری جگہ چلے جائیں گے اور میں بھی بچوں کے ہمراہ دبئی کے سفر پر روانہ ہوجاوں گا مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس مرتبہ ہمیں آپ کی خدمت کیلیے بہت کم وقت ملا ہے میرا دل چاہتا تھا کہ آپ کو مختلف جگہوں پر گھمانے کے لئے بھی لے کر جاتا لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا، تاہم اگر آپ اجازت دیں تو آج آپ کو یہاں سے تقریبا ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر نارتھ ویلز کے علاقے میں ایک بہت خوب صورت اور پرفضا قصبہ ہے لینڈڈنو (Llandudno) کے نام سے یہ ایک سمندری قصبہ ہے جہاں سمندر بھی ہے پہاڑ بھی ہے، سمندر اور پہاڑ کے درمیان ایک خوبصورت راستہ ہے جس کو میرین ڈرائیو کہتے ہیں وہاں پر چند بہت خوب صورت قابل دید مقامات ہیں، میرا دل چاہ رہا ہے کہ آج آپ کو وہاں لےجاوں ایک تو کچھ سیر و تفریح بھی ہو جائے گی دوسرا اور اصل مقصد یہ ہے کہ اس طرح کچھ وقت آپ کی صحبت میں مزید گزر جائے گا پھر پتہ نہیں آپ کا دوبارہ کب آنا ہو، اس عاجز نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر ہم شام کے پروگرام سے پہلے بروقت واپس پہنچ جائیں گے تو انشاءاللہ ضرور چلیں گے اسی بہانے ایک نئی جگہ بھی دیکھ لیں گے اور ایسے پر فضا مقام پر جا کر وہاں کچھ دیر بیٹھ کر اللہ اللہ بھی کر لیں گے ممکن ہے قیامت کے دن وہاں کے پہاڑ اور درخت ہمارے حق میں گواہی ہی دے دیں ،  چنانچہ یہ طئے ہو گیا کہ ہم تقریبا ساڑھے دس گیارہ بجے ناشتہ کرنے کے بعد روانہ ہو جائیں گے،

آرام قبل از طعام

چونکہ ناشتہ میں ابھی ٹائم تھا تو یہ عاجز اس خیال سے کچھ وقت مزید آرام کی نیت سے لیٹ گیا کہ پھر اس کے بعد شام تک چونکہ سفر بھی ہوگا اور مصروفیت بھی اور رات کو مغرب کے بعد مسجد نور کا پروگرام بھی ہے اس لئے بہتر ہے کہ ابھی کچھ آرام کر لیا جائے، ویسے تو قیلولہ دوپہر کے کھانے کے بعد ہوتا ہے ہم نے اس میں کچھ ترمیم کر کے قیلولہ کو قبل از طعام بنا لیا،

ناشتہ یا برنچ

گیارہ بجے ہم لوگ ناشتہ کیلئے نیچے پہنچ گئے بھائی افضل عارف صاحب بھی آ چکے تھے، ماشاءاللہ خوب بھرپور ناشتہ ہمارا منتظر تھا، ناشتہ کیا تھا اچھا بھلا دوپہر کا کھانا تھا اس لئے کہ گرم گرم پراٹھوں کے ساتھ کئی طرح کے سالن شھد مکھن اور دیگر بہت سے لوازمات دسترخوان پر موجود تھے، اصل میں اس عاجز کا اپنے گھر میں دو وقت صبح اور شام کھانے کا معمول ہے، صبح اشراق کے بعد بھرپور ناشتہ اور پھر شام کو کھانا، اگر کسی دن دوپہر کو کھانا ہو تو پھر ناشتہ گول کر لیتا ہوں، تو سفر کے دوران بھی جو پرانے اور بےتکلف میزبان ہیں ان کو یہ عاجز اپنے اس معمول کے بارے میں بتا دیتا ہے کہ مجھے اس میں سہولت ذیادہ ہے، تو اس وجہ سے ہمارے میزبان ناشتہ کو جو عام طور پر دس گیارہ بجے کے قریب ہوتا ہے پرتکلف برنچ  کی شکل دے کر اپنی میزبانی کا شوق پورا کر لیتے ہیں، البتہ سفر میں کئی مرتبہ مختلف احباب کی طرف سے دعوتوں کا اصرار ہوتا ہے اور رات میں پہلے سے بکنگ ہونے کی وجہ سے کئی دوستوں کی محبت بھری فرمائش کی وجہ سے دوپہر کے کھانے کی دعوت بھی قبول کرنی پڑتی ہے تو پھر ایسی صورت میں معمول میں کچھ فرق پڑ جاتا ہے، بہرحال کھانے اور مزے دار (مصالحہ والی گجراتی) چائے سے فارغ ہونے کے بعد اس عاجز نے ایک مرتبہ پھر وضو تازہ کر لیا اور حافظ محمد صاحب کی نئی اور آرام دہ مرسڈیز گاڑی میں بیٹھ کر چلنے کیلئے تیار ہو گئے، ہم نے پہلے چونکہ قبرستان جانا تھا جو کہ تقریبا آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا،

یہ قبرستان Dunham massey graveyard کہلاتا ہے اور اس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تدفین کے لئے بھی ایک بڑا قطعہ زمین مخصوص ہے، راستے میں یہ عاجز مولانا عبدالغنی صاحب ان کی اہلیہ اوراس قبرستان میں مدفون دیگر مسلمانوں کےایصال ثواب کی نیت سے قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتا رہا،

مومن کا اصل ٹھکانہ

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:

“جب انسان مرجاتا ہے تو صبح وشام اس کا ٹھکانہ اس پر  پیش کیا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو اس پر جنت پیش کی جاتی ہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہوتا ہے تو اس پر جہنم پیش کی جا تی ہے اور اس سے کہا جاتاہے: “هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى تُبْعَثَ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”

” یہ تیرا ٹھکانہ ہے جس میں تجھے قیامت کے دن یہاں سے اٹھا کر داخل کردیا جائے گا”

چناں چہ ہم تھوڑی دیر میں قبرستان پہنچ گئے اور گاڑی پارکنگ لاٹ میں کھڑی کرنے کے بعد پیدل قبرستان کے اس حصہ کی طرف چلنا شروع ہوے جو مسلمانوں کے لئے مختص تھا گیٹ سے جب اندر داخل ہوئے تو اس وقت بھی وہاں ایک میت گاڑی کھڑی تھی اور مقامی گورے لوگ اپنے کسی قریبی عزیز کی تدفین کے لئے جمع تھے، ہم ان کے قریب سے گزرنے لگے تو انھوں نے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہائے ہیلو کی ہم نے بھی سر کے اشارے سے جواب دیا، گوروں کی اس عادت کا تجربہ کئی مرتبہ ہوا کہ کیسی ہی سچوئشن کیوں نہ ہو وہ چہرہ پر مسکراہٹ لا کر ھائے ھیلو ضرور کرتے ہیں،

ہم حافظ محمد صاحب کی رہنمائی میں چلتے ہوئے ان کے والدین کی قبور کے پاس پہنچ گئے سلام اور دعا کے دوران مولانا عبدالغنی صاحب کا شفیق چہرہ اس عاجز کی نگاہوں کے سامنے گھومتا رہا، وہاں کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب کے بعد مولانا عبدالغنی صاحب ان کی اہلیہ اور اس قبرستان میں مدفون تمام مسلمانوں کے لئے بھی دعائیں کیں، نیز اپنے اور متعلقین کے حسن خاتمہ کیلئے بھی خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگنے کی توفیق اللہ تعالی نے عطا فرمائی،

خاموش پیغام

یہاں کے قبرستان بڑے ہی صاف ستھرے منظم اور دیکھنے میں بظاہر بہت خوب صورت ہوتے ہیں قبریں بھی ایک خاص ترتیب سے بنی ہوتی ہیں بقول ہمارے کسی مزاح نگار کے کہ ۔۔۔

گوروں کے قبرستان اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ بے اختیار بندے کا مرنے کو دل کرتا ہے یہ تو خیر مذاق میں کہی گئی ایک بات تھی۔۔

لیکن درحقیقت قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے بظاہر پرسکون نظر آنے والی قبر کے اندر کے حالات کیا ہیں اس کا تعلق انسان کی زندگی میں کئے ہوئے اعمال کے ساتھ ہے نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔۔۔

إن القبر أول منزل من منازل الآخرة “قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے”

اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے ہی فرماتے کہ اپنے  بھائی کے لئے استغفار کرو۔ اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جارہاہے۔”

اس لئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ۔۔۔

قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا، اللہ تعالی اپنے خصوصی رحم اور کرم سے ہماری قبر کو جنت کا باغ بناے اور جہنم کا گڑھا بننے سے محفوظ رکھے آمین،

موت برحق ہے کفن کے ملنے میں شک ہے

ہم کچھ دیر وہاں کھڑے ہو کر دنیا کی بےثباتی پر غور کرتے رہے یہاں کی خاموشی اور سکوت میں بھی ایک پیغام پوشیدہ تھا، اس شہر خاموشاں کی خاموشی زبان حال سے یہ پیغام دیتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی کہ تم جو کوئی بھی ہو اور اپنے آپ کو جتنا بھی ضروری اور ناگزیر سمجھتے ہو بالآخر تمہیں اپنی ساری بھاگ دوڑ اور مصروفیات کو چھوڑ کر ایک دن اسی قبر میں اپنا ٹھکانہ بنانا ہے بلکہ ہمارے بڑے تو اس سے بڑھ کر یہ بات فرماتے ہیں کہ “موت برحق ہے لیکن کفن کے ملنے میں شک ہے” ۔۔۔

کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے

کیسے کیسے گھر اجاڑے موت نے

کھیل کتنوں کے بگاڑے موت نے

سروقد کیا کیا پچھاڑے موت نے

فیل تن قبروں میں گاڑے موت نے

کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے

ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے،

ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ۔۔۔

“جس کی زندگی محمود اس کی موت بھی محمود اور جس کی زندگی مذموم اس کی موت بھی مذموم”

اس عاجز نے حافظ محمد صاحب اور افضل عارف صاحب سے کہا کہ ہم نے چونکہ آگے سفر پر جانا ہے اور اس وقت ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت داخل ہو چکا ہے اور ہمارا وضو بھی ہے ہم اگر ظہر کی نماز یہاں پر ہی ادا کر لیں تو ذرا بے فکری ہوجائے گی دونوں حضرات نے اس عاجز کی رائے کی تائید کی، چنان چہ وہ گاڑی سے ایک چادر لے آئے اور ہم نے وہاں پر ہی ایک مناسب سی جگہ پر چادر بچھائی اور الحمدللہ ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے،

Begin typing your search above and press return to search.