https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

Quetta Visit September 2022

یہ عاجز مورخہ 27 ستمبر بروز منگل کو ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم کے خلیفہ مجاز مولانا کلیم اللہ صاحب نقشبندی اور دیگر احباب کی دعوت پر لاہور سے بذریعہ پی آئی اے سفر کوئٹہ کیلئے روانہ ہوا، ہمارے جہاز نے صبح 8:20 پر پرواز کے لئے اڑان بھری اور تقریبا ایک گھنٹہ بیس منٹ کی آرام دہ اور خوشنما مناظر سے بھرپور پرواز کے بعد 9:40 پر عافیت کے ساتھ کوئٹہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا، کوئٹہ کا موجودہ سفر عاجز کا غالبا پانچواں سفر تھا، سب سے پہلا سفر 2008 میں ہوا تھا اور اس سفر سے پہلے آخری سفر 2017 کے آخر یا 2018 کے اوائل میں ہوا تھا، اس کے بعد کرونا اور دیگر عوامل کی وجہ سے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود پروگرام نہ بن سکا گزشتہ جولائی اگست میں سفر برطانیہ کے دوران مولانا کلیم اللہ صاحب کا محبت بھرا پُراصرار میسیج آیا کہ حضرت اس مرتبہ جھنگ اجتماع سے پہلے پہلے آپ نے کوئٹہ کا سفر ضرور کرنا ہے، چنانچہ عاجز ان کے حکم کو ٹال نہ سکا اور سفر کوئٹہ کے لئے حامی بھر لی

کوئٹہ کا جدید ایرپورٹ
یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ماشاءاللہ کوئٹہ ایرپورٹ بھی اب ایک نئے اور نسبتا جدید ایرپورٹ میں تبدیل ہوگیا ہے ہمارا جہاز بھی نئے ٹرمینل کی عمارت کے ساتھ مربوط ایپرن ریمپ سسٹم سے لگ کر کھڑا ہو گیا جس کی وجہ سے جہاز سے سیڑھی کے ذریعہ اترنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ آپ جہاز سے براہ راست ٹرمینل کی عمارت میں داخل ہوجاتے ہیں، اس عاجز کے ساتھ دستی سامان کے طور پر ایک ٹرالی بیگ ہی تھا لہذا تھوڑی ہی دیر میں ایرپورٹ کی عمارت سے باہر آ گیا جہاں مولانا کلیم اللہ صاحب مولانا ساجد صاحب اور مولانا روزی خان صاحب اپنے احباب کے ہمراہ استقبال کیلئے موجود تھے سلام اور ملاقات کے بعد اس عاجز نے مختصر دعا کروائی اور ہم لوگ دو مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر روانہ ہوئے،

پہلے ناشتہ پھر آرام
ایرپورٹ سے نکلنے کے بعد مولانا کلیم اللہ صاحب کہنے لگے کہ حضرت یہاں ایرپورٹ سے قریبی علاقہ میں حاجی وزیر خان صاحب کی نئی رہائش گاہ پر آپ کے لئے ناشتہ کا انتظام کیا گیا ہے پہلے ناشتہ کرلیں پھر اس کے بعد آرام کیلئے رہائش گاہ پر جائیں گے، ماشاءاللہ حاجی وزیر خان صاحب نے پر تکلف ناشتہ کی دعوت کا انتظام کیا ہوا تھا جس میں ہمارے ساتھیوں کے علاوہ حاجی صاحب کے بھائی بیٹے اور بھتیجے بھی شریک تھے،
ناشتہ کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانوں کے علاوہ ایک خاص قسم کی میٹھی اور خوشبو دار روٹی نے اس عاجز کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی روٹی اتنی خستہ اور مزیدار تھی کہ عاجز بے اختیار تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا، اس قسم کی میٹھی روٹی مری کے رہنے والے لوگوں کے ہاں بھی بنتی ہے مگر جو خستگی اور مزہ کوئٹہ کی میٹھی روٹی میں آیا اس کی اپنی ایک علیحدہ بات تھی، مولانا کلیم اللہ صاحب فرمانے لگے کہ حضرت یہ روٹی ہمارے گھر کی خواتین بڑی محنت اور شوق سے بناتی ہیں اس میں سب سے پہلے گڑ کا شربت بنا کر اس میں خالص دیسی گھی، سونف اور الائچی کو ملا کر آٹا گوندھا جاتا ہے اور اس آٹے سے پھر یہ روٹی تیار کی جاتی ہے اور اس روٹی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ کئی دن کے بعد تک بھی اس کے مزے خستگی اور ذائقہ میں کوئی فرق نہیں آتا، پر تکلف اور مزیدار ناشتہ کرنے کے بعد میزبان اور ان کے اہل خانہ کیلئے دعا سے فارغ ہو کر ہم اپنی رہائش گاہ پر جانے کیلئے نکلے، تھوڑی دیر میں ہم لالہ خان بادزئی ہاوسنگ اسکیم میں پہنچ گئے جہاں اس مرتبہ اس عاجز کے لئے رہائش کا انتظام مولانا روزی خان بادزئی کے ڈیرہ پر کیا گیا تھا جہاں الحمدللہ سہولت کی ہر چیز موجود تھی،

آج کے دن کے پروگراموں کی تفصیل
آج کے دن اس عاجز کے دو پروگرام طئے تھے، پہلا پروگرام ظہر کے بعد سہ پہر تین بجے مولانا ساجد فیض صاحب کے مدرسہ ام عائشہ للبنات میں اور دوسرا پروگرام مغرب کی نماز کے بعد مولانا روزی خان صاحب بادزئی کے مدرسہ جامعہ اسلامیہ مغربی بائی پاس میں تھا، جہاز کا سفر اگرچہ آرام دہ تھا لیکن سفر بہر حال سفر ہی ہوتا ہے کچھ نہ کچھ تھکن تو ہو جاتی ہے، چنانچہ طئے یہ ہوا کہ ظہر کی نماز تک آرام کر لیا جائے اور پھر ظہر کی نماز پڑھ کر ہم ڈھائی بجے کے قریب پروگرام کیلئے روانہ ہوں گے،

ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر ہم مولانا ساجد فیض صاحب کے مدرسہ ام عائشہ للبنات میں پروگرام کے لئے روانہ ہوئے یہ عاجز مولانا روزی خان صاحب کی گاڑی میں تھا جسے وہ خود ڈرائیو کر رہے تھے باقی ساتھی مولانا کلیم اللہ صاحب کی گاڑی میں بیٹھ گئے الحمدللہ ہم لوگ بروقت جامعہ ام عائشہ میں پہنچ گئے جہاں جامعہ کے اساتذہ مولانا ساجد صاحب کے بڑے بھائی اور دیگر احباب پہلے سے موجود تھے مرد حضرات کے لئے اس عاجز کے ساتھ علیحدہ کمرے میں بیان سننے کا انتظام کیا گیا تھا ،

بیان کا موضوع
مدرسہ ام عائشہ چونکہ بنات کا مدرسہ تھا جس میں ماشاءاللہ کثیر تعداد میں طالبات ابتدا سے دورہ حدیث تک کے درجات میں زیر تعلیم ہیں اس لئے بیان کی مخاطب خواتین میں پڑھنے والی طالبات کے علاوہ جامعہ میں پڑھانے والی معلمات اور قریبی علاقہ کی رہائشی خواتین کی بھی کافی بڑی تعداد موجود تھی، اس عاجز نے بیان کے لئے “وسعت رزق” کے موضوع کو منتخب کیا جس کی ابتداء میں خطبہ مسنونہ کے بعد بطور تمہید یہ عرض کیا کہ آج کے مادی دور میں انسان نے روٹی اور رزق کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ہے روٹی کو اتنی اہمیت کبھی بھی حاصل نہیں تھی جتنی آج کے دور میں حاصل ہے، اس کے حصول کی خاطر آج بندہ اپنے رب کو بھی ناراض کر لیتا ہے حلال حرام کی تمیز بھی بھول جاتا ہے رزق کی فراوانی کے باوجود شکوے ہی شکوے ہیں اللہ تعالی کی نعمتیں کھا کھا کر ہمارے دانت تو گھس جاتے ہیں مگر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے ہماری زبان نہیں گھستی، آج کے دور میں ذیادہ کھا کر مرنے والوں کی تعداد فاقوں سے مرنے والوں کی بنسبت ذیادہ ہے آج کل کی اکثر بیماریاں بھی ذیادہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہیں مثلا شوگر کی بیماری ذیادہ میٹھا کھانے کی وجہ سے دل کی بیماریاں ذیادہ مرغن غذائیں کھانے کی وجہ سے اور ہائی بلڈ پریشر اور معدہ کا السر وغیرہ ذیادہ چٹ پٹی چیزیں کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے،

عزت کا غلط معیار
پھر یہ بھی عرض کیا کہ آج کے دور میں کم قسمتی سے عورت کی خوبصورتی اور مرد کی دولت مندی کو عزت کا معیار بنا لیاگیا ہے حالانکہ اللہ رب العزت کے نذدیک عزت اور فضیلت کا معیار تقوی ہے یہ بھی عرض کیا کہ دین اسلام نے ہمیں اباحیت اور رہبانیت دونوں سے منع کیا اور اعتدال کی تعلیم دی اور پھر آخر میں قرآن وحدیٹ کی روشنی میں رزق بڑھانے والے اعمال مثلا ۔۔۔

نماز کا اہتمام
استغفار کی کثرت
انفاق فی سبیل اللہ
تقوی کا اہتمام کرنا
دین کی خاطر ہجرت کرنا
کثرت عبادت
دوام طہارت
اللہ کی نعمتوں کا شکر
والدین کی فرنبرداری
اللہ تعالی پر توکل
اور صلہ رحمی کا اہتمام وغیرہ ۔۔۔

اور پھر رزق کی تنگی کے اسباب میں ہماری کون کون سی بدعملیاں شامل ہیں ان پر بھی کچھ روشنی ڈالی،

وجہ انتخاب
اس موضوع کو منتخب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر عورت یہ طئے کر لے کہ ہم نے ہر حال میں رزق حلال ہی کھانا ہے ہمارے مرد حلال کمائیں اور گھر میں حلال ہی لے کر آئیں تو اس سے بہت سی معاشرتی برائیاں اور گناہ ہمارے ماحول اور معاشرے سے ویسے ہی ختم ہو جائیں گے، بیان کے بعد مولانا ساجد فیض صاحب نے اس عاجز کو کہا کہ حضرت توبہ کے کلمات بھی پڑھا دیں چنانچہ پورے مجمع کو اجتماعی طور پر توبہ کے کلمات پڑھا کر بیعت کیا اور مراقبہ کروا کر دعا ہوئی اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے سفر کوئٹہ کا پہلا پروگرام عافیت اور کامیابی کے ساتھ ساتھ اختتام پذیر ہوا،

 

Begin typing your search above and press return to search.