https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

UK Visit 2022 Episode 5

اس سفر کے ابتدائی دو دن اس عاجز کا پروگرام اور قیام اولڈ ٹریفورڈ کے علاقہ میں تھا جہاں پر اس عاجز کے قدیمی میزبان اور ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم کے محب حضرت مولانا عبد الغنی صاحب کا گھر ہے ،

مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ

ان کا آبائی تعلق انڈیا گجرات سے تھا مولانا کا تعلیم کے سلسلہ میں کچھ وقت مظاہرالعلوم سہارنپور میں گزرا جبکہ فراغت جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل سے ہوئی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مولانا عبدالحق میاں صاحب کی زیرنگرانی مجلس خدام الدین سملک کے تحت چلنے والے مکاتب کے GUEST XAMINER مقرر ہوئے اور تقریبا تیس سال تک اس ادارے سے منسلک ہو کر خدمات انجام دیتے رہے، اس ملازمت کے دوران ایک مرتبہ مولانا عبدالغنی صاحب کا ایک ایسے گاوں میں جانا ہوا جس کا نام غالبا نارن پور تھا وہاں پر مولانا کو محسوس ہوا کہ اس گاوں میں رہنے والے مسلمانوں کی حالت دینی اور تعلیمی اعتبار سے انتہائی زوال پذیر بلکہ ایک طرح سے ارتداد میں مبتلا ہونے کے قریب ہے تو مولانا نے اپنے ادارے کے ذمہ دار حضرات سے اجازت لی کہ میں کچھ عرصہ یہاں پر رہ کر ان لوگوں میں کام کرنا چاہتا ہوں چنانچہ مولانا تقریبا چھ ماہ وہاں پر قیام پذیر رہے اور اپنی محنت اور کاوش سے مکتب کی صورت میں ایک مدرسہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اس کا کچھ انتظام کرنے کے بعد واپسی پر وہاں سے ایک نوجوان بچے کو علم دین حاصل کروانے کی نیت سے اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے آئے اور اپنی کفالت میں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں اس کو داخل کروایا اور تعلیم مکمل کروا کر بالآخر اسی گاوں میں وہاں کے لوگوں کی تعلیم وتربیت کیلئے مستقل طور پر تعینات کروا دیا، اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کے دل میں لوگوں کی دینی حالت کی بہتری اور ان کے ایمان کو بچانےکا کتنا فکر اور غم تھا،

مولانا عبدالغنی صاحب سنہ 1984 میں انڈیا سے ہجرت کر کے برطانیہ آگئے اور یہاں پر بھی بطور مدرس قرآن تعلیم وتعلم سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ دینی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے تھے، مولانا عبد الغنی صاحب کا ایک خصوصی وصف علماء صلحاء اور مشائخ سے محبت اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ ان کو کھلانے پلانے کا شوق تھا اس سلسلے میں اکثر اپنے گھر پر باہر سے آئے ہوئے مہمان علماء کی مقامی علماء کے ہمراہ بہت پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کرتے رہتے تھے اور ان کے اس شوق میں ان کی اہلیہ محترمہ بیٹے حافظ محمد اور بہو ان کے شانہ بشانہ بھرپور معاونت کرتی تھیں،

اس عاجز نے جب پہلی مرتبہ سنہ 2003 میں انگلینڈ کے سفر پر آنے کا ارادہ کیا تو حضرت جی دامت برکاتہم نے کمال شفقت سے یہاں کے چند احباب کے نام اور ٹیلی فون نمبر اپنے ہاتھ سے لکھ کر دئیے کہ آپ ان سے رابطہ کریں گے تو انشاءاللہ یہ لوگ سفر کے دوران پروگرامز کے سلسلہ میں آپ کی معاونت کریں گے اور ان ناموں میں سرفہرست مولانا عبدالغنی صاحب کا نام تھا جن کے بارے میں حضرت جی نے اس عاجز کو فرمایا تھا کہ یہ دونوں میاں بیوی بہت محبت اور عقیدت والے ہیں اور حضرت جی کی منشا بھی یہ تھی کہ میں سب سے پہلے انہی سے رابطہ کروں، اور واقعی پھر مولانا عبدالغنی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ نے انتہائی محبت اور خلوص کے ساتھ میزبانی کیلئے اس انتخاب کا حق ادا کر دیا، مولانا عبدالغنی صاحب نے نہ صرف اس عاجز کے قیام اور طعام کا ہمیشہ بہترین انتظام کیا بلکہ اپنی ذاتی کوششوں سے قرب وجوار کی مساجد اور مقامی علماء کے ساتھ تعارف اور اس عاجز کے پروگرامز کے انعقاد کے سلسلہ میں بھی بھرپور تعاون اور نصرت کا معاملہ فرمایا جس کی وجہ سے الحمدللہ وہاں بہت اچھے پروگرام بھی ہوئے اور ایک حلقہ احباب بھی بن گیا، اسی طرح مولانا کی اہلیہ محترمہ نے بھی میزبانی کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور قرب و جوار کی مستورات کیلئے بیانات کا سلسلہ اپنے گھر پر شروع کروایا اور مختلف مواقع پر مستورات کو اس عاجز سے بیعت توبہ کروا کر اعمال میں جوڑنے کی فکر اور کوششیں کیں، ایک خاتون خانہ ہونے کے باوجود ان کے اندر دوسروں کی خیر خواہی کا جذبہ اور خاندان کی دیگر رشتہ دار عورتوں کی اصلاح کے بارے میں فکرمندی اور کڑھن اللہ تعالی نے ان کے دل میں پیدا کی تھی ،  حضرت جی دامت برکاتہم سے نسبت کی وجہ سے اس عاجز فقیر کے ساتھ بھی انتہائی شفقت اور محبت کا معاملہ کرتی تھیں،

چناں چہ اس سفر سے پہلے کے تمام اسفار میں دونوں میاں بیوی نے اس فقیر کے ساتھ بہت ذیادہ محبت تعاون اور اکرام کا معاملہ فرمایا ۔۔ مگر افسوس کہ آج سے چند سال قبل پہلے مولانا کی اہلیہ محترمہ اور اس کے چند سال کے بعد بالآخر حضرت مولانا عبد الغنی صاحب بھی اس دارفانی سے انتقال فرما کر دارالبقاء کی طرف کوچ کر گئے انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ تعالی اپنی رحمت کاملہ سے ان کی زندگی بھر کی محنتوں کاوشوں اور دینی و ملی خدمات کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین،

عاجز آج جب ان کے گھر پہنچا تو گھر کی فضا میں ان کی محبت بھری یادوں کی خوشبو اب بھی محسوس ہو رہی تھی، سامان وغیرہ رکھنے کے بعد تازہ دم ہو کر یہ عاجز جب نشت گاہ میں پہنچا تو ذہن کی اسکرین پر مولانا کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی ایک فلم سی چلنے لگی، یہ عاجز ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بظاہر تو اس کے در و دیوار کو تک رہا تھا لیکن حقیقت میں مولانا عبدالغنی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی شفقت بھری یادوں میں کھویا ہوا تھا، ہر چیز ویسے کی ویسے ہی محسوس ہو رہی تھی بس کمی تھی تو ان دو محبت کرنے والی شفیق ہستیوں کی کمی تھی جن کے پرخلوص انداز نے کبھی اس عاجز کو دیار غیر میں بھی گھر سے دوری اور اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا تھا، یہ تحریر لکھتے ہوئے بھی اس عاجز کی آنکھیں ان کی یاد میں نمناک ہیں کہ بعض لوگ کتنے مخلص اور بے لوث ہوتے ہیں کہ آپ کا نہ ان سے کوئی خونی رشتہ ہوتا ہے نہ آپس میں کوئی دنیاوی مفاد وابستہ ہوتا ہے نہ آپ کا اور ان کا آبائی وطن ایک ۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود محض دینی اخوت اور محبت کے رشتے میں بندھے ہونے کی وجہ سے بہت سے اپنوں سے بڑھ کر اپنے بن جاتے ہیں،

دین کی نسبت سے محبت اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت ہے

یہ دین کی نسبت کتنی اعلی نسبت ہے جو اجنبیوں کو بھی باہم محبت اور اخوت کی لڑی میں پرو کر یک جان دو قالب بنا دیتی ہیں ۔۔ واقعی اب سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اس مبارک دین کی تعلیمات کی برکت سے صحابہ کرام کے دلوں پر محنت فرما کر ان کے دلوں کا ایسا تزکیہ فرما دیا تھا کہ ان کے دل ہر طرح کی غرض اور مرض سے پاک ہو کر اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز ہو گئے تھے بلکہ اللہ تعالی کی نسبت سے اللہ کے بندوں سے بھی محبت کرنے والے بن گئے تھے، نبی علیہ السلام کی مبارک تربیت اور صحبت کی برکت نے ان کو باہم ایک دوسرے کے ساتھ بھی شیر وشکر بنا دیا تھا، وہ لوگ جو زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن تھے دین اسلام کی روشن تعلیمات کے ذریعہ اللہ رب العزت نے ان کے دلوں میں ایسی محبتیں ڈال دی کہ نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کی جانوں کے محافظ بن گئے بلکہ آزمائش اور جان کنی کے عالم میں بھی وہ اپنی ذات پر اپنے دینی بھائی کو ترجیح دینے والے بن گئے حتی کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں “ويؤثرون على أنفسهم ولؤ كان بهم خصاصه” کے الفاظ کے ساتھ ان کی تعریف فرمائی،

آج علم کی کمی نہیں عمل کی کمی ہے

آج کے دور میں علم کی بھی کمی نہیں اور نعمتیں بھی وافر مقدار میں ہمارے پاس موجود ہیں بس اگر کمی ہے تو دین اسلام کی مبارک تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوے پاکیزہ اخلاق پر عمل پیرا ہونے میں کمی ہے آج علم کی کمی نہیں عمل کی کمی ہے، اللہ تعالی ہمیں بھی دین اسلام کی نعمت عظمی کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور اس مبارک دین کی روشن تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے ماحول اور معاشرے سے نفرتیں اور کدورتیں ختم ہوں اور ہم سب بھی باہم محبت اور اخوت کے رشتہ میں بندھ کر آپس میں پیار اور محبت کی زندگی گزاریں اور پورے ماحول اور معاشرے میں محبتوں کی خوشبو پھیل جاے، آمین

Begin typing your search above and press return to search.