https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

UK Visit 2022 Episode 4

ہم ائرپورٹ سے بھائی حافظ محمد صاحب کی نئی اور آرام دہ گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہوئے تو اس عاجز نے محمد بھائی سے حال احوال پوچھنے کے بعد ان کی نئی گاڑی کی تعریف کی اور مبارکباد بھی دی،

اچھی سواری بھی اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے

ایک مرفوع حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کے پاس خادم، سواری، اور بیوی ہو وہ تو (گویا) بادشاہ ہے یعنی یہ تین نعمتیں ایسی ہیں کہ اس شخص کو اللہ تعالی نے بادشاہوں والی زندگی عطا فرمائی ہے، ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم سے بیرون ممالک میں جب بھی کوئی گاڑی کیلئے دعا کا کہتا تو عموما حضرت جی دعا دیتے ہوئے فرماتے کہ اللہ تعالی آپ کو بڑی اور ٹھنڈی گاڑی عطا فرمائے، واقعی اس کا ہمیں اکثر تجربہ ہوا کہ گاڑی اگر بڑی اور پر سہولت ہو تو دین کے کاموں کیلئے بھی بہت معاون ثابت ہوتی ہے، بیرون ممالک میں مقیم لوگوں کے لئے وہاں پر ایسی گاڑی خرید کر افورڈ کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا اس لئے کہ وہاں پر گاڑیاں (شاید ٹیکس وغیرہ ذیادہ نہ ہونے کی وجہ سے) اتنی مہنگی نہیں ہوتیں،

ہم ائرپورٹ کی حدود سے باہر نکلے تو ہماری منزل مانچسٹر کا علاقہ اولڈ ٹریفورڈ تھا جہاں مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ کا گھر ہے محمد بھائی راستہ میں مختلف قابل ذکر مقامات کا تعارف بھی کرواتے رہے

کچھ مانچسٹر کے بارے میں

19 ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے آنے کے بعد اس شہر نے بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کی، اس وقت ملک کی تیسری سب سے بڑی معیشت مانچسٹر کی ہے۔ مانچسٹر برطانیہ کے تمام شہروں میں سے سیاحت کے اعتبار سے لندن اور ایڈنبرا کے بعد غیر ملکیوں کا تیسرا سب سے پسندیدہ شہر ہے،

یہ شہر اپنی تعمیرات،ثقافت، سائنسی اور انجنیرنگ پیداوار، سماجی اثر اور سپورٹس کی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی قابل ذکر ہے، خصوصا فٹبال کا کھیل یہاں کا سب سے مقبول کھیل ہے پھر اس کے بعد غالبا کرکٹ ہے ویسے بھی دنیا میں فٹ بال سب سے زیادہ کھیلا اور دیکھا جانے والا کھیل ہے جس کی وجہ سے اس میں کمانے اور خرچ کرنے کیلئے بہت پیسہ ہے۔ دنیا میں سب سے مہنگا فٹبال کلب “مانچسٹر سٹی” ہے جو اسی شہر میں ہے،اس کلب کے موجودہ مالک متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والےشیخ منصور بن زاید النہیان ہیں،

ایک اندازے کے مطابق “مانچسٹر سٹی” فٹبال کلب کی مارکیٹ ویلیو 892.89 ملین پاؤنڈ ہے یہ کلب شیخ منصور بن زاید النہیان نے سنہ 2008 میں خریدا تھا شیخ منصور ابو ظہبی کی رائل فیملی کا حصہ ہیں، وہ شاہی خاندان  کیلئے سرمایہ کاری  کرنے والی کمپنی کے سربراہ اور خود بھی ارب پتی شخصیت ہیں۔ مانچسٹر یونائیٹڈ اور مانچسٹر سِٹی یہاں کے دو مشہور ترین فٹبال کلبز ہیں، چناں چہ راستہ میں ایک بہت بڑا پیالہ نما بیضوی شکل کا اسٹیڈیم آیا جس کے بارے میں اس عاجز کو بتایا گیا کہ یہ اتحاد اسٹیڈیم ہے جو “مانچسٹر سٹی” کلب کا گراؤنڈ ہے،

کچھ دیر کے بعد ہم ایک اور اسٹیڈیم کے پاس سے گزرے جس کے بارے میں بتایا گیا یہ اولڈ ٹریفرڈ کا مشہور کرکٹ گراونڈ ہے جو 1857 میں قائم ہوا اور 1864 سے لنکا شائر کاونٹی کا ہوم کرکٹ گراؤنڈ ہے اور 2013 سے ایمریٹس ائر لائن کی طرف سے اسپانسر کر لئے جانے کی وجہ سے اب “ایمریٹس اولڈ ٹریفورڈ گراونڈ” کہلاتا ہے اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے اکثر میچز اس گراونڈ پر ہوتے رہے ہیں،

مال مفت دل بے رحم

کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ۔۔

کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب

پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب

لیکن آج زمانہ ایسی الٹی چال چل گیا اور کھیلوں میں اتنی ذیادہ شہرت اور پیسہ شامل ہو گیا ہے کہ آج کا ایک ایک کھلاڑی کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں بکتا ہے اور اس خرید و فروخت کی تفصیلات کو ٹی وی اور میڈیا پر خوب مرچ مصالحہ کے ساتھ ایسے آئیڈیلائز کر کے پیش کیا جاتا ہے کہ آج کل کے اکثر نوجوانوں کا خواب اب لکھنا پڑھنا نہیں بلکہ کھیل کود کے ذریعہ نام اور پیسہ بنانا ہے ۔۔

اور افسوس کی بات یہ کہ شیطان نے ایسا چکر چلایا ہے کہ کھیل کود کی  ان سرگرمیوں میں ذیادہ پیسہ بھی ہمارے مسلم ممالک کے عرب حکمران خاندانوں کا لگ رہا ہے قطر کے شاہی خاندان کی ملکیت بھی جرمنی کا ایک مشہور فٹبال کلب ہے، پھر مہنگے ترین گھڑ دوڑ کے مقابلوں اور اس میں ہمارے عرب شیوخ کی دلچسپیوں کی ہوش ربا تفصیلات اس کے علاوہ ہیں، ایک طرف مسلم ممالک کے غریب عوام کی اکثریت جو تعلیم  رہائش خوراک اور صحت کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے غربت تنگدستی اور پسماندگی کا شکار ہے اور دوسری طرف ہمارے دولت مند عیش و عشرت کے دلدادہ حکمرانوں کے اللے تللے ۔۔

ع ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

یا یوں کہ سکتے ہیں۔۔

رہزن و رہنما ہم سفر

الامان الحفیظ الحزر

اللہ تعالی ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے، راستہ میں ایک قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے حافظ محمد صاحب نے بتایا کہ اس قبرستان میں ایک حصہ مسلمانوں کیلئے مختص ہے اور ہمارے اکابر میں سے کچھ عرصہ پہلے انتقال فرمانے والے جبل العلم حضرت علامہ خالد محمود صاحب رحمہ اللہ بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں، اس عاجز نے فوری طور پر کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا اور ساتھیوں سے کہا کہ انشاءاللہ کسی موقع پر حضرت علامہ صاحب کی قائم کردہ اکیڈمی میں بھی تعزیت کی نیت سے  حاضر ہوں گے، ایک جگہ سے گزرتے ہوے ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ ایک نئی مسجد قائم ہوئی ہے جو پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دین دار ڈاکٹر پاشا صاحب نے بنوائی ہے اس وقت تو سرسری سا ذکر ہی ہوا لیکن بعد میں اس سفر کے دوران اس عاجز کو اسی مسجد میں ایک جمعہ پڑھانے کی دعوت ملی اور بہت اچھا پروگرام ہو گیا جس کی تفصیل انشاءاللہ اپنے موقع پر بیان کی جائے گی، کچھ ہی دیر میں ہم حافظ محمد صاحب کے گھر میں پہنچ گئے اس گھر کے ساتھ اس عاجز کی بڑی پرانی یادیں وابستہ ہیں جس کی تفصیل انشاءاللہ آگے بیان کی جائے گی۔

Begin typing your search above and press return to search.