الحمدللہ مسجد نور کا پروگرام بہت ہی کامیاب اور اچھا ہوگیا مسجد کی انتظامیہ کے لوگوں نے بھی بہت ذیادہ خوشی اور محبت کا اظہار کیا اور کہاکہ ہم آئندہ بھی آپ کی آمد کے منتظر رہیں گے آپ جب بھی تشریف لائیں تو ہماری اس مسجد میں آپ کا پروگرام ضرور ہونا چاہیے ، مسجد کے امام خطیب مولانا قاری محمد صاحب نے کمیٹی کے تمام اراکین کے سامنے دوبارہ سب کی طرف سے ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم کےلئےخصوصی پیغام دیا کہ ہم سب لوگ بڑے حضرت جی کی یہاں انگلینڈ تشریف آوری کے بھی شدت سے منتظر ہیں اور پھر سے یہ بات دہرائی کہ حضرت جی جب بھی تشریف لائیں تو بس ہماری اس مسجد کو مرکز بنا کر یہاں پر قیام فرمائیں ہم دوسرے علاقے اور شہروں کے احباب کو یہیں پر جمع کر لیں گے تاکہ حضرت جی کو سفر کی مشقت نہ اٹھانی پڑے، عاجز نے ان سے وعدہ کیا کہ انشاءاللہ آپ حضرات کے یہ محبت بھرے جذبات حضرت جی دامت برکاتہم تک ضرور پہنچا دے گا، چناں چہ پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد ہم احباب کے ہمراہ مولانا عبدالغنی صاحب کے گھر واپس آ گئے، بھائی طارق عثمانی صاحب اور آصف علی صاحب اولڈہم سے جبکہ افضل عارف صاحب ناٹھنگم سے اور ان کے بیٹے حافظ حامد افضل صاحب جو یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں وہ پریسٹن سے آئےہوئے تھے ان کے علاوہ مقامی دوستوں کی بھی قابل ذکر تعداد ساتھ تھی،
گھر آ کر کچھ دیر دوست احباب سے گفتگو ہوتی رہی اور اس کے بعد ہمارے میزبان حافظ محمد صاحب نے اطلاع دی کہ حضرت دستر خوان لگ چکا ہے آپ کھانے کیلئے تشریف لے آئیں، ماشاءاللہ آج بھی دستر خوان انواع و اقسام کے پرتکلف کھانوں اور دیگر لوازمات سے سجا ہوا تھا کھانوں کی ورائٹی اور بھوک دونوں نے مل کر ماحول کچھ ایسا بنا دیا تھا کہ ۔۔ کم کھانے یا بھوک چھوڑ کر کھانے کی سنت پر عمل کرنا مشکل محسوس ہو رہا تھا، اب ماحول کا کچھ نہ کچھ اثر تو ہوتا ہی ہے لہذا ہمیں بھی حالات سے مجبور ہوکر کھانے سے خوب خوب انصاف کرنا ہی پڑا،
کھا کر خوش ہونے والے اور کھلا کر خوش ہونے والے
اب اتنا ذیادہ کھلانے کے بعد جب میزبان یوں کہتا ہے کہ حضرت آج آپ نے کھانا کم کھایا ہے تو یہ عاجز اکثر جواب میں یہی عرض کرتا ہے کہ بھئی کم کھلانا ہےتو سادہ دال سبزی پکایا کرو ۔۔۔ جس قسم کے “چٹ پٹے” کھانے آپ پکا کر کھلاتے ہیں “ایسا کھانا تو کم کھایا ہی نہیں جا سکتا” ہمارے میزبان کا تعلق بھی چونکہ اس طبقے سے تھا جو کھلا کر خوش ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں کی تسلی ذرا مشکل سے ہوتی ہے، الحمدللہ ہم نے پیٹ بھرکر کھایا جی بھر کے اللہ کا شکر ادا کیا اور دل کھول کر کھلانے اور پکانے والوں کو دعائیں بھی دی،
حافظ بن کر کھائے گا کہاں سے
کبھی کبھی تو اس عاجز کو حیرت بھی ہوتی ہے کہ آج اگر کوئی والدین اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کیلئے مدرسہ میں داخل کروانے لگیں تو اکثر رشتہ داروں کو فکر لگ جاتی ہے کہ ۔۔
“حافظ بن کر یہ کھائے گا کہاں سے” ۔۔
اللہ کے بندوں اللہ تعالی دین اور قرآن کی برکت سے اتنا کھلاتے ہیں کہ بندہ بس بس کر اٹھتا ہے،
ایک مرتبہ ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم امریکہ کی کچھ ریاستوں کا تبلیغی دورہ کر کے واپس نیویارک تشریف لائے تو یہ عاجز حضرت جی کو لینے کے لئے ایرپورٹ پر گیا حضرت جی جب گاڑی میں بیٹھ گئے تو اس عاجز نے محسوس کیا کہ حضرت جی بہت تھکے ہوئے ہیں، کچھ دیر سفر کے حال احوال لینے کے بعد ایک مناسب موقع دیکھ کر عاجز نے جھجکتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت آپ اپنے آرام کا بھی کچھ خیال فرمایا کریں، یہ کہتے ہوئے دل میں یہ بات تھی کہ ہمارے حضرت جی کی زندگی کوئی عام زندگی تو ہے نہیں یہ قوم کی امانت ہے اور اس قیمتی امانت کی حفاظت کا خیال رکھا جانا چاہئیے،
میری بات سن کر حضرت جی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ حافظ صاحب ۔۔
ہمارے اس سلسلہ میں کھانے پینے کا مجاھدہ نہیں ہے کھانا پینا تو اس راستہ میں اللہ خوب کھلاتے ہیں ہمارے اس سلسلہ میں نیند کا مجاھدہ ہے، اگر کوئی بندہ سلسلہ کی نشرواشاعت کا کام صحیح طریقہ سے کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی نیند اور آرام کا مجاھدہ کرنا پڑے گا، حضرت جی کی یہ بات سن کر اس عاجز نے عرض کی کہ حضرت جی یہ تو اور بھی مشکل کام ہے اسلئے کہ ۔۔
“کم کھا کر تھوڑا سونا تو نسبتا آسان ہے مگر خوب کھا کر پھر نہ سونا” واقعی کمال ہے،
کھانے سے فارغ ہوئے تو محمد بھائی کہنے لگے کہ حضرت ہماری کچھ رشتہ دار خواتین آپ سے بیعت ہونا چاہتی ہیں اور باقی گھر کی مستورات جو اگرچہ پہلے سے بیعت ہیں وہ بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دوبارہ سے تجدید بیعت کرنا چاہتی ہیں تو اس عاجز نے کہا بہت اچھا انشاءاللہ کچھ دیر میں ان کو وقت دیتے ہیں آپ اس دوران گھر والوں کو موقع دیں کہ وہ برتن اور دسترخوان وغیرہ سمیٹ لیں، یہ عاجز آئے ہوئے مہمانوں میں سے جو جانا چاہتے ہیں ان کو رخصت کرنے کی نیت سے ذرا باہر چلتا ہے اور ان کو رخصت کر کے واپس آتا ہے (اس عاجز کو چونکہ رات کے کھانے کے بعد کچھ چہل قدمی کرنے کی عادت ہے) تو دل میں یہ نیت بھی تھی کہ اسی بہانے کچھ دیر چہل قدمی کرنے کا موقع بھی مل جاے گا،
گوروں کےدیس میں فقراء کا مٹرگشت
عاجز نے مقامی دوستوں سے پوچھا کہ یہاں کچھ دیر باہر چہل قدمی کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہم اگر چند داڑھی پگڑی والے لوگ باہر پیدل چلیں گے تو یہ لوگ برا تو محسوس نہیں کریں گے؟ سب دوست کہنے لگے کہ حضرت یہاں پر کوئی برا محسوس نہیں کرتا اس علاقہ میں ویسے بھی مسلمان اور دیسی لوگ کافی تعداد میں آباد ہیں،
چناں چہ کچھ دیر دوستوں کے ہمراہ جن میں مسجد نور کے امام مولانا قاری محمد صاحب بھی شامل تھے ہم گھر کے قریبی علاقہ میں واک کیلئے نکل پڑے اور راستہ میں ہلکی پھلکی گفتگو کا سلسلہ بھی چلتا رہا چونکہ عشاء کی نماز کے بعد کا وقت تھا تو کبھی کبھار اکا دکا گاڑیوں کے گزرنے کے علاوہ سڑکیں اس وقت بالکل خالی تھیں، کچھ دیر چہل قدمی کرنے اور مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد ہم گھر واپس پہنچے تو حافظ محمد صاحب نے اطلاع دی کہ حضرت خواتین پردہ میں جمع ہو چکی ہیں آپ کچھ دیر ان سے گفتگو فرما کر بیعت کے کلمات پڑھا دیں،
خواتین کے لئے مختصر مجلس بیعت
اس عاجز کا چونکہ مولانا عبدالغنی صاحب اور ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد گھر کی مستورات سے مخاطب ہونے کا پہلا موقع تھا تو سب سے پہلے تو ان سے چند باتیں تعزیت کے طور پر کیں اور اسی ضمن میں پھر موت کے عنوان پر کچھ گفتگو کرنے کے بعد سب کو توبہ کے کلمات پڑھا کر بیعت کیا اور مراقبہ کروا کر اجتماعی دعا کروائی، موقع اور عنوان کی وجہ سے ماحول میں سوگواری اور رقت کی کیفیت طاری تھی اس لئے خوب ذوق شوق کے ساتھ گڑگڑا کر دعا مانگتے کی توفیق اللہ تعالی نے عطا فرمائی،
آج حافظ محمد صاحب کے گھر میں ہمارے قیام کی آخری رات تھی کل یہاں سے جمعہ پڑھانے کے لئے دوسرے شہر بریڈ فورڈ جانا تھا اور وہاں سے واپسی پر پھر اس عاجز کا زیادہ تر قیام مانچسٹر کے مضافاتی شہر اولڈہم میں تھا جہاں آصف علی صاحب اور بھائی طارق عثمانی صاحب نے اس عاجز کا رفیق سفر اور میزبان بننا تھا،