https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

UK Visit 2022 Episode 11

الحمدللہ نارتھ ویلز کے اس پہاڑی اور تفریحی مقام کی سیاحت سے خوب محظوظ ہونے کا موقع اللہ تعالی نے ہمیں عطا فرمایا، واپسی کے سفر میں اس عاجز نےحافظ محمد صاحب سے پوچھا کہ عصر کی نماز ہمیں راستہ میں پڑھنی پڑھےگی یا ہم وقت پر واپس پہنچ جائیں گے؟

محمد بھائی کہنے لگے کہ حضرت عصر سے پہلے ہم انشاءاللہ واپس مانچسٹراپنے گھر پہنچ جائیں گےاور نماز انشاءاللہ وہاں جاکر پڑھیں گے، یہاں انگلینڈ میں نمازوں کے اوقات اس طرح ہیں کہ ظہر اور عصر کے درمیان سات آٹھ گھنٹے کا فرق آجاتا ہے، آج کل عصر کی نماز اکثر مساجد میں ساڑھے سات اور آٹھ بجے کے درمیان ہورہی ہے، الحمدللہ ہم عصر سے پہلے خیر و عافیت کے ساتھ واپس مانچسٹر پہنچ گئے، چونکہ آج بھی حافظ محمد صاحب نے عصر کے بعد مقامی علماء اور دوستوں کے لئے اپنے گھر پر کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا جبکہ اس عاجز کا معمول بیان سےفارغ ہوکر کھانا کھانے کا ہوتا ہے تو اس لئے کچھ وقت نماز آرام اور بیان کی تیاری کیلئے بھی مل گیا،

بیان کی تیاری اور موضوع کا انتخاب

دعوتی اور تبلیغی سفر کے دوران علاقہ کی مسجد اور نمازیوں کی نوعیت کو سامنے رکھ کرکچھ بیان کی تیاری بھی کرنی پڑتی ہے کہ کس موضوع پر کون سا بیان کہاں پر مناسب ہوگا، گزشتہ روز مسجد ھدایہ میں محبت الہی کے عنوان پر بیان ہوا تھا، چونکہ دونوں مساجد کا ماحول تقریبا ایک جیسا تھا دونوں مساجد میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ علماء صلحاء اور تبلیغی جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ساتھیوں کی تعداد ذیادہ تھی تو اللہ تعالی نےدل میں یہی بات ڈالی کہ آج بھی محبت الہی کے عنوان پر ہی بات کی جائے البتہ آج کا بیان گزشتہ کل والے بیان سے مختلف ہونا چاہئیے،

ہماری مجبوریاں

اگرچہ دو مختلف مساجد اور مختلف دنوں میں ایک ہی بیان کو دھرایا بھی جاسکتا ہے اسلئے کہ جگہ اور مجمع تو بہرحال مختلف ہوتا ہے مگر ایک اور چیز کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے وہ یہ کہ الحمدللہ سلسلہ کی قبولیت کی یہ برکت ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت سے دوران سفر ساتھ چلنے والے دوستوں کی بھی ایک جماعت بن جاتی ہے جو مختلف بیانات میں ساتھ ساتھ چلتی ہے تو کئی مرتبہ ان دوستوں کی رعایت بھی کرنی پڑتی ہے کہ ان بےچاروں پر یہ مجاھدہ نہ آئے کہ انھیں ایک ہی بیان پھر سے سننا پڑے حالانکہ کئی مرتبہ ساتھی کہتے بھی ہیں کہ حضرت ہمیں تو اس سے فائدہ ہوتا ہے ہمارا تو سبق یاد ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود کوشش یہی ہوتی ہے کہ نئی جگہ پر بیان بھی نیا یا مختلف کیا جائے،

ایک دلچسپ اور یادگار واقعہ

اسی ضمن میں اس عاجز کو پندرہ بیس سال پرانا ایک واقعہ بھی یاد آ گیا ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم امریکہ تشریف لائے ہوے تھے، نیویارک کا ایک علاقہ ہے “بروکلین” جہاں پاکستانی کافی تعداد میں آباد ہیں اس علاقہ کی ایک معروف اور بڑی مسجد جس کا نام “مکی مسجد” ہے اس میں ہمارا نقشبندی اجتماع تھا جس کے آخر میں مرکزی بیان اور دعا حضرت جی دامت برکاتہم نے کروانی تھی، حضرت جی نے اس عاجز کو حکم فرمایا کہ حافظ صاحب آپ ذرا پہلے جا کر وہاں پر کچھ بیان شروع کر دیں ہم بھی انشاءاللہ اپنے وقت پر پہنچ جائیں گے، یہ عاجز  حسب الحکم وہاں پہنچ گیا، اب چونکہ اس عاجز نے تو جو کچھ بھی سیکھا ہے اپنے حضرت جی دامت برکاتہم سے ہی سیکھا ہے تو عام طور پر یہ عاجز بیانات بھی وہی کرتا ہے جو ہمارے حضرت جی فرمایا کرتے ہیں،

چناں چہ اس عاجز نے وہاں پہنچ کر بیان شروع کر دیا عاجز کے بیان کے دوران کچھ دیر کے بعد حضرت جی دامت برکاتہم بھی تشریف لے آئے تو جیسے ہی حضرت جی پر میری نظر پڑی تو باوجود اس کے کہ حضرت جی نے اشارہ بھی فرمایا کہ بیان جاری رکھیں لیکن اس عاجز نے فورا اپنا بیان روک دیا کہ حضرت جی کے سامنے بیان کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، خیر حضرت جی منبر پر تشریف لائے اور خطبہ مسنونہ کے بعد حضرت جی دامت برکاتہم نے بیان شروع کیا اورحسب معمول بہت عمدہ بیان فرمایا اور پورے مجمع کو خوب تڑپایا اور دعا میں بھی خوب رلایا، پروگرام ماشاءاللہ بہت  ہی کامیاب ہوا اور خوب لوگ سلسلہ میں بھی داخل ہوئے، واپسی پر اس عاجز نے حضرت جی کی خدمت میں عرض کیا حضرت آج کا پروگرام تو الحمدللہ بہت اچھا ہوگیا اور آپ کا بیان بھی ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تھا، حضرت جی دامت برکاتہم میری بات سن کر مسکرائے اور ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ آج ہم لوگ جیسے ہی مسجد میں پہنچے تو ماشاءاللہ حافظ صاحب وہی بیان فرما رہے تھے جو میں سوچ کر گیا تھا کہ آج یہ والا بیان کروں گا اور صرف یہی نہیں بلکہ حافظ صاحب کو اشارہ بھی کیا کہ کچھ دیر بات جاری رکھیں تاکہ مجھے کوئی اور مضمون سوچنے کا موقع مل جاے مگرحافظ صاحب نے ہمیں  اس کی بھی مہلت نہیں دی، یہ باتیں حضرت جی دامت برکاتہم نے تو مسکراتے ہوئے پرمزاح انداز میں فرمائی باقی سب ساتھی تو ہنسنے لگےلیکن یہ عاجز دل ہی دل بہت شرمسار ہوا کہ میری وجہ سے حضرت جی کو یہ مشقت اٹھانی پڑی تاہم اس واقعہ سے اور حضرت جی کے ساتھ سفر کے دوران چند دوسرے واقعات سے یہ اندازہ ہو گیا کہ حضرت جی دامت برکاتہم اس چیز کا بہت خیال فرماتے ہیں کہ ایک بیان ایک ہی مجمع کے سامنے دو مرتبہ ریپیٹ نہ ہو، بلکہ ہم نے حضرت جی دامت برکاتہم کی یہ عادت بھی دیکھی کہ ہر مرتبہ جب تشریف لاتے تو کہیں پر بھی بیان کرنا ہوتا تو ہم سے پوچھ لیتے تھے کہ پچھلی مرتبہ یہاں کس موضوع پر بیان ہوا تھا ہمیں اگر یاد ہوتا تو ہم حضرت جی کی خدمت میں عرض کردیتے اورحضرت اس موضوع سے ہٹ کر پھر کوئی دوسرا بیان فرماتے،

ہمارے لئے پکی پکائی کھیر  

الحمدللہ ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم نے ہرعنوان کی طرح محبت الہی کے عنوان پر بھی اتنے بیان مختلف انداز سے فرما دئیے ہیں کہ اگر پورے سفر میں صرف اسی ایک عنوان پر بات کی جائے تو ہمارے لئے ایک موضوع پر حضرت جی کے مختلف بیانات کی صورت میں گویا پکی پکائی کھیر تیار ہوتی ہے، پروگرام کے لئے روانگی

عاجز مغرب سے پہلے تیار ہوکر جب نیچے پہنچا تو ماشاءاللہ کافی علماء اور جماعت کے احباب جمع تھے ان سے سلام دعا کے بعد پروگرام کیلئے اکھٹے ہی مسجد جانے کیلئے نکلے کچھ ساتھی گاڑیوں میں اور باقی اکثر پیدل ہی چل پڑے اس لئے کہ مسجد نور مولانا عبدالغنی صاحب کے گھر سے ذیادہ فاصلہ پر نہیں تھی،مغرب کی نماز کی امامت نوجوان عالم دین مولانا یوسف چنارا صاحب نے کی جو دارلعلوم بری سے فارغ ہیں اور مولانا قاری محمد صاحب کے ساتھ مسجد نور کے شریک امام ہیں، ماشاءاللہ یہاں کی مساجد کے اکثر ائمہ کرام جہری نمازوں کی امامت کے دوران قرآن پاک اتنے خوبصورت اور دلنشیں انداز سے پڑھتے ہیں کہ طبیعت خوش ہوجاتی ہے ,مسجد نور کے دونوں ہی امام ماشاءاللہ بہت اچھا قرآن پڑھتے ہیں،

بیان مراقبہ اور دعا

نماز کے بعد حضرت مولانا محمد صاحب نے بہت عمدہ انداز سے مجمع کو متوجہ کرتے ہوئے اس عاجز کا تعارف کروایا اور بیان شروع کرنے کی دعوت دی، خطبہ مسنونہ کے بعد اس عاجز نے آیت مبارکہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰه تلاوت کی  اور اس کے بعد حدیث مبارکہ جس میں نبی علیہ السلام نے فرمایا ۔۔

 اَحِبُّو مَن اَحَبَّ الله وَاَحِبُّواللهَ مِن كُلِّ قُلُوبِكُم ۔۔

تم محبت کرو اس شخص سے جو اللہ تعالی سے محبت کرنے والا ہو اور تمہیں چاہیے کہ تم اپنے پورے دل سے اللہ تعالی سے محبت کرنے والے بن جاو، اس آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کی تلاوت اور ابتدائی تمہید کے بعد عاجز نے کچھ مزید قرآنی آیات احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے واقعات کی روشنی میں محبت الہی کے عنوان کو  ذرا کھول کر اس سے متعلق چند باتیں حاضرین مجلس کے گوش گزار کیں نیز آیت مبارکہ ۔۔ مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ اللہ تعالی نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بناے دل ایک ہے اور ایک وحدہ لا شریک کے لئے ہے، لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل کو اللہ رب العزت کی محبت کیلئے وقف کر دیں ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی دلوں کے بیوپاری ہیں قیامت کے دن ہمارے دلوں کو ٹٹولیں گے اگر دل کو اپنی محبت سے لبریز پائیں گے تو بدلہ میں اپنی رضا اور جنتیں عطا فرما دیں گے،

الحمدللہ بیان کے دوران مشائخ کی توجہات کی برکتیں واضح طور پر محسوس ہو رہی تھیں جس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو نظر آ جاتا ہے کہ سننے والا مجمع ہمہ تن گوش اور حاضر باش ہوکر بات کو نہ صرف سن رہا ہے بلکہ بات کو لے بھی رہا ہے ویسے بھی ہم اپنے حضرت جی سے سنتے رہتے ہیں کہ۔۔ “از دل خیزد بر دل ریزد” کہ دل سے نکلی ہوئی بات دل پر جا کر اثر کرتی ہے، الحمداللہ بیان کے بعد مراقبہ ہوا اور توبہ کے کلمات پڑھا کر آخر میں آنسوؤں کی برسات کے ساتھ دعائیں مانگی گئیں اور ہمارا پروگرام اختتام پذیر ہوا،

گرم انگھیٹھی

بیان کے بعد حسب معمول لوگوں سے معانقہ اور مصافحہ شروع ہوا یہ عاجز نیک اور متقی لوگوں سے فقط مصافحہ کو ہی اپنی سعادت سمجھ کر اکتفا کرنے کی کوشش کرتا مگر ہر مصافحہ کرنے والا معانقہ کیلئے گلے لگا لیتا اور کئی لوگ تو خوب بھینچ کر اپنی محبت کے اظہار کی کوشش کرتے اس معانقہ والے عمل کے دوران بعض لوگوں کی ہچکیوں سے اندازہ ہوا کہ دعا تو ختم ہو چکی ہے لیکن الحمدللہ اللہ تعالی نے اپنے بندے پر کرم فرما کر اس کے سینے کی انگھیٹھی گرم کر دی ہے،

گرما گرم چاے اور کیک

جب لوگوں سے کچھ فارغ ہوئے تو مسجد کے امام خطیب مولانا قاری محمد صاحب فرمانے لگے کہ حضرت اگر آپ کچھ دیر کیلئے مسجد سے متصل آفس میں تشریف لے آئیں وہاں پر مسجد کمیٹی کے تمام اراکین آپ کی صحبت میں مزید کچھ دیر بیٹھ کر مسجد کے پراجیکٹس کے بارے میں بتا کر دعائیں بھی لیناچاہتے ہیں اور ذاتی طور پر آپ کی تشریف آوری کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتے ہیں، چناں چہ یہ عاجز اپنے چند احباب کے ہمراہ مسجد کے آفس میں چلا گیا جہاں گرما گرم گجراتی چاے اور کیک کے ساتھ سب کی تواضع کی گئی اس دوران وہاں پر تشریف فرما علماء اور مسجد کمیٹی کے اراکین کا تعارف بھی ہوتا رہا،

مسجد کے امام حضرت مولانا قاری محمد صاحب کے بارے میں

ان کا پورا نام محمد حافظ داود لمبادا ہے آبائی تعلق انڈیا گجرات سے ہے،1997ء میں معروف تعلیمی ادارے جامعہ اسلامیہ فلاح دارین ترکیسر سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1999ء میں انگلینڈ آ گئے ابتدائی چند سال ایک ادارے میں بطور حفظ مدرس خدمت انجام دینےکے بعد 2006ء سے مسجد نور میں بطور امام خطیب اور مدرس حفظ کےخدمات انجام دے رہے ہیں، ماشاءاللہ کئی بچے ان سے حفظ قرآن مکمل کر چکے ہیں اور اس وقت بھی تقریبا 40 کے قریب بچے ان کےپاس حفظ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، مولانا قاری محمد صاحب ماشاءاللہ صاحب نسبت بھی ہیں اورصاحب اخلاق بھی ہیں،

کچھ مسجد نور کے بارے میں

یہ عاجز جب پہلی مرتبہ یوکے کے سفر پر آیا تھا تو اس وقت اس عاجز کا بیان پرانی عمارت میں ہوا تھا اور موجودہ نئی عمارت تعمیر مکمل ہونے کے بعد فنشنگ کے مراحل میں تھی، مسجد کی نئی خوب صورت اورجدید تعمیر اکتوبر 2003 میں مکمل ہوئی، مسجد نور ماشاءاللہ نماز کیلئے دو منزلہ  وسیع و عریض ہال پر مشتمل ہے، خواتین کےلئے علیحدہ پاپردہ انتظام ہےاس کے علاوہ صاف ستھرے جدید ٹوائلٹس اور وضو خانہ جہاں معذورین کی سہولت کا بھی مناسب انتظام ہے، دوسری منزل پر جانے کیلئے ضعیف اور معذور افراد کیلئے جدید ترین لفٹ بھی نصب ہے اس کے علاوہ مدرسہ کی علیحدہ عمارت، کلاس رومز، کچن، اور تبلیغی جماعت کے ٹھہرنے کیلئے بھی بہترین انتظام موجود ہے، اس کے علاوہ گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے بھی مناسب جگہ موجود ہے،

مسجد کی تعلیمی سرگرمیاں

مسجد سے متصل مکتب مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد تقریبا ساڑھے چار سو (450) ہے جن میں قابل ذکر تعداد قرآن پاک حفظ کرنے والے بچوں اور بچیوں کی بھی ہے، اساتذہ اور معلمات کی تعداد ماشاءاللہ (30) کے قریب ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ یہاں انگلینڈ میں مساجد سے متصل مکتب کی ترتیب کتنی مضبوط ہے اور یاد رہے کہ یہ مکاتب وہاں پر قائم مستقل جامعات اور مدارس کے علاوہ ہیں،

Begin typing your search above and press return to search.