https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

UK Visit 2022 Episode 10

ہماری اگلی منزل مانچسٹر سے تقریبا 82 میل کی مسافت پر نارتھ ویلز کا مشہور اور خوب صورت ساحلی قصبہ لینڈڈنو (Llandudno) تھا، جس کے نام کے تلفظ کی درست ادائیگی اُس وقت بھی کافی مشکل محسوس ہو رہی تھی،

اسلئے اس عاجز نے چند دفعہ سننے کے بعد اس کی سپیلنگ پوچھ کر لکھ لینا ہی بہتر سمجھا کہ کسی کو بتا تو سکیں کہ کہاں گئے تھے، مانچسٹر سے اپنی گاڑی پر وہاں جانے میں تقریبا ایک گھنٹہ چالیس منٹ لگتے ہیں، چناں چہ کچھ ہی دیر میں مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی ہماری گاڑی موٹر وے M56 پر رواں دواں تھی، یہاں کے موٹرویز آرام دہ اورسبک رفتار ڈرائیونگ کے لئے اور اپنے خوشنما کنٹری سائیڈ مناظر کے اعتبار سے بڑے قابل دید ہوتے ہیں، یہ عاجز حافظ محمد صاحب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھا اور بھائی افضل عارف صاحب پچھلی سیٹ پر براجمان تھے ہم لوگ گفتگو کے ساتھ ساتھ راستے کے خوشنما مناظر سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے،

اچھے ڈرائیور کی پہچان

ماشاءاللہ حافظ محمد صاحب گاڑی بہت اچھے طریقے سے ڈرائیو کرتے ہیں گاڑی چلانے میں ان کی مہارت کا اندازہ رفتار اور کنٹرول دیکھ کر ہو رہا تھا، ویسے اس عاجز نے کسی بھی ڈرائیور کے اچھا ہونے کا ایک آسان سا فارمولہ یہ بنایا ہوا ہے کہ آپ اگر فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں تو آپ بےفکری کے ساتھ آس پاس کے خوب صورت مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں اور اس دوران اگر آپ کو نیند آجاے تو آپ آنکھیں بند کر کے سونے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں،اس لئے کہ بعض اوقات پروگرامز کی مصروفیات کی وجہ سے دوران سفر سونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر ایسے موقع پر یہ گاڑی ڈرائیو کرنے والے ڈرائیور پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ آپ کو سونے دیتا ہے یا آنکھیں مستقل کھلی رکھ کر دعائیں پڑھتے رہنے میں ہی مشغول رکھتا ہے،

بعض ڈرائیور تیز رفتاری، کٹنگ، بار بار لین کی تبدیلی، اور عین اگلی گاڑی کے قریب جاکر بریک لگا دینے کو اپنی ڈرائیونگ کی مہارت سمجھ رہے ہوتے ہیں اور انہیں اس بات کا ہرگز اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ کی ان پھرتیوں کی وجہ سےساتھ بیٹھے ہوئے مسافر کے دل پر کیا گزر رہی ہے ،

سمندر اور پہاڑ کا سنگم

الحمدللہ ہم عافیت کے ساتھ بروقت اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے، نارتھ ویلز کے اس ساحلی اور تفریحی قصبہ میں دیکھنے کے اعتبار سے ویسے تو کئی مقامات تھے ساحل سمندرتھا کچھ تاریخی قلعے بھی تھے ٹرین ٹرپ اور دیگر کئی چیزیں تھیں لیکن ہمارے پاس ایک تو وقت کی کمی تھی کہ ہم نے رات کے مسجد نور والے پروگرام کی وجہ سے مغرب سے پہلے مانچسٹر واپس پہنچنا تھا، دوسرا یہاں اکثر جگہوں پر مرد و زن کے اختلاط اور ہجوم کی کثرت کی وجہ سے تفریح سے لطف اندوز ہونے کے بجائے نگاہوں کی حفاظت کا مجاھدہ ذیادہ کرنا پڑ جاتا ہے لہذا ہمارا مشورہ یہ ہوا کہ ہم قریبی پہاڑی کے اوپر چلےجاتے ہیں جہاں پہاڑ اور سمندر کے درمیان بل کھاتی ہوئی ایک خوبصورت سڑک ہے جس کو میرین ڈرائیو کہتے ہیں اور تقریبا گھنٹے پون گھنٹے میں یہ پہاڑ کے گرد چکر لگا کر واپس آجاتی ہے اور اس پر ڈرائیو کے دوران چند مقامات پر آپ گاڑی ایک طرف پارک کرکے وہاں کچھ دیر ٹہر بھی سکتے ہیں، پہاڑ کی اونچائی سے سمندر اور آس پاس کے علاقے کا نظارہ ایک عجیب لطف دیتا ہے،

وضو کی برکتیں ہر جگہ

طئے یہ ہوا کہ اوپر چڑھنے سے پہلے واش روم وغیرہ سے فارغ ہوکر وضو تازہ کر لیں چناں چہ ساحل کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک خوبصورت اور وسیع عریض ریسٹ ایریا میں حافظ محمد صاحب نے ایک مناسب سی جگہ پر گاڑی روک لی، ہم گاڑی سے اتر کر واش روم کی طرف جانے لگے تو محمد بھائی نے ایک پانی کی بوتل بھی نکال کر دی کہ حضرت یہ لےجائیں استنجا کے لئے اس کی ضرورت پڑ سکتی ہےاور یہ میں نے اسی مقصد کے لئے گاڑی میں رکھ لی تھی، عاجز نے شکریہ کے ساتھ بوتل وصول کی اور دل ہی دل میں محمد بھائی کو دعا بھی دی کہ مہمان کی سہولت کا کتنا اہتمام ان کے اندر ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی خیال رکھتے ہیں،

صفائی نصف ایمان

اللہ کا شکر ہے کہ واش روم بالکل صاف ستھرے تھے وگرنہ ہمارے ملکوں میں بعض اوقات بندہ کسی مجبوری کی وجہ سے پبلک واش روم میں چلا جائے تو اتنی گندگی اور بدبو ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ آیا ہوا پیشاب رک جاتا ہے حالانکہ تعلیم تو ہمیں دی گئی تھی کہ ۔۔ اَلطُّھُورُ شَطْرُ الإِْیمَان” طہارت و پاکیزگی نصف ایمان ہے، واش روم سے فراغت اور تازہ وضو کرنے کے بعد طبیعت فریش ہوگئی تھی، اللہ تعالی نے وضو کے اندر ایک عجیب اثر رکھا ہے کہ وضو کرنے کے بعد ایک خاص قسم کی تازگی و قلبی انبساط کا احساس واضح طور پر محسوس ہوتا ہے، اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سنت اور عمل میں کتنی جاذبیت کشش اور سکون رکھا ہے،

میرین ڈرائیو

ہم وہاں سے روانہ ہو کر پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے، واقعی میرین ڈرائیو پر گاڑی چلاتے ہوئے سمندر اور پہاڑ کا نظارہ بہت قابل دید تھا، اوپر پہنچ کر ایک جگہ پر ہم لوگ گاڑی سے اترگئے اور وہاں کچھ دیر چہل قدمی کرتے ہوئے جگہ اور ماحول کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے رہے ایسے موقع پر بے اختیار قرآن پاک کی آیت مبارکہ ۔۔

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

 زبان پر آ جاتی ہے جس کا ترجمہ ہے ۔۔ اے ہمارے رب آپ نے یہ سب کچھ بے فائدہ تو پیدا نہیں کیا پس آپ ہمیں جھنم کے عذاب سے بچا لیجئے، ایسے مواقع پر عاجز اس آیت کو ذرا بلند آواز سے پڑھتا بھی ہے اور اپنے ہم سفر ساتھیوں کو اس کا مفہوم بتا کر غور وفکر کی دعوت بھی دیتا ہے اور ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اور ایسی جگہوں پر کبھی مراقبہ کا موقع مل جاے تو دوران مراقبہ یہ اشعار ضرور پڑھتا ہے ۔۔

چاند تاروں میں تُو مرغزاروں میں تُو اے خدایا

کس نے تیری حقیقت کو پایا

تو نہاں تیرا جلوہ عیاں ہے

تیری ہستی کا مظہر جہاں ہے

پھول میں مثل بُو، چھپ کے بیٹھا ہےتُو اےخدایا

کس نے تیری حقیقت کو پایا

تیرا ہی کل جہاں، یہ زمیں آسماں اےخدایا

کس نے تیری حقیقت کو پایا

بحر عصیاں سے مولی بچا لے

دل کی کشتی ہے تیرےحوالے

تُو ہی غفار ہے،تُو ہی ستار ہے اےخدایا

کس نے تیری حقیقت کو پایا

تفریح کا مفہوم

تفریح کے لغوی معنی ہیں دل کو فرحت بخشنا، گرمی کے موسم میں کہیں دور سے آرہے ہوں، سخت تکان اور پیاس ہو اور کسی اچھے شربت کا ایک ٹھنڈا گلاس پی لیں تو دل کو ایک فرحت پہنچتی ہے، خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کیفیت کے فراہم کرنے کو تفریح کہتے ہیں۔ جس طرح جسم کی تفریح ہوتی ہے، عقل کی تفریح بھی ہوتی ہے، ذہن کی تفریح بھی ہوتی ہے، جذبات واحساسات کی تفریح بھی ہوتی ہے، دل کی تفریح بھی ہوتی ہے اور یہ تفریح انسانی مزاج، انسانی طبیعت، انسانی جذبات واحساسات کو regenerate کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ انسان ایک ماحول سے اکتا جاتا ہے، بعض اوقات ماحول کی یکسانیت اسے بور کردیتی ہے، وہ پریشان ہوجاتاہے، اس بنا پر ماحول میں جدت پیدا کرنے کے لیے اسے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عربی کا ایک جملہ ضرب المثل ہے۔۔ کل جدید لذیذ ہر جدید لذیذ ہوتا ہے، ہرنئی چیز میں ایک لذت ہوتی ہے۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہر نئی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے کہ وہ نئی چیز میں لذت محسوس کرتا ہے۔ اگر کسی پرانی چیز کو بھی نئے انداز سے پیش کیا جائے تو اس میں بھی ایک نیاپن محسوس ہوتاہے۔ آپ گھر میں جائیں اور گھر کے فرنیچر کو ایک نئے انداز سے ترتیب دے دیں، اس کی تشکیل بدل دیں تو کمرہ نیا معلوم ہونے لگے گا۔ پرانی کتابیں نکالیں، انہیں نئی ترتیب دے دیں، ان کی نئی جلدیں بنوالیں تو آپ کو اس میں ایک نیا پن اور اپنائیت محسوس ہونے لگے گی، ایک خوشی محسوس کریں گے۔ آپ لباس میں تھوڑی جدت پیدا کر لیں تو آپ کو اچھا لگےگا،خوشی محسوس ہوگی۔ 

گویا جدت میں انسان لذت محسوس کرتاہے اور نئے پن میں ایک تفریح محسوس ہوتی ہے۔ عام معمول سے ہٹ کر انسان جب کوئی نئی چیز کرتاہے تو اس کو خوشی ہوتی ہے، اس خوشی کی وجہ سے تفریح محسوس ہوتی ہے، اس تفریح کی وجہ سے طبیعت پھر سے تر و تازہ ہو جاتی ہے، ہم لوگ جو شہروں میں رہتے ہیں، تفریح کے لیے پہاڑوں پر جاتے ہیں اور جو لوگ پہاڑوں پر رہتے ہیں، وہ تفریح کے لیے شہروں میں آتے ہیں، جو آدمی جس ماحول میں رہتا ہے، اس سے ہٹ کر وہ نیا ماحول تلاش کرنا چاہتا ہے یہ ایک فطری بات ہے،

شرعی نقطہ نظر

اس میں شرعاً بھی کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ کسی خلاف شریعت فعل کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ شریعت نے انسان کے تمام فطری تقاضوں کی تکمیل کا سامان کیا ہے، دین اسلام میں خوشی منانے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا اہتمام نہ صرف جائز ہے، بلکہ قرآن مجید کے بالواسطہ اشارے کے مطابق مسنون اور بہتر ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا (یونس: ۵۸) اللہ کے فضل کو یاد کرکے خوشی کا اظہارکرو، فرحت کا اظہار کرو۔ یہی تفریح ہے۔

وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ: ۱۱(

اللہ تعالیٰ جو نعمت عطا کرے، اسے بیان کرو۔ کیونکہ جب نعمت کو بیان کرو گے تو نعمت کی قدر ہوگی، ورنہ بھول جاؤ گے کہ اللہ نے یہ نعمت تمہیں عطا کی ہے۔ اگر اللہ کی نعمت کااظہار دوسروں کے سامنے نہیں کرو گے تو یاد نہیں رہے گا کہ اللہ نے بڑی نعمت دی تھی۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین

Begin typing your search above and press return to search.