الحمدللہ یہ عاجز مورخہ 27 جولائی 2022 بروز بدھ کو سعودی ائر لائن کی پرواز کے ذریعہ لاہور سے براستہ جدہ تبلیغی سفر پر مانچسٹر کیلئے روانہ ہوا۔اس عاجز کو پہلے بھی کئی مرتبہ برطانیہ آنے کا موقع اللہ تعالی نے مرحمت فرمایا، قیام امریکہ کے دوران اس عاجز کے شیخ مکرم حضرت مولانا پیر
ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم نے ایک مرتبہ حکم فرمایا کہ مصروفیات اور دیگر اسفار کی کثرت کی وجہ سے انگلینڈ کے لئے وقت نہیں نکل پاتا تو آپ اگر پاکستان آتے یا جاتے ہوئے انگلینڈ میں بھی کچھ وقت قیام کر لیا کریں تو اس سے وہاں کے دوستوں کو بھی فائدہ ہوگا اور بیانات کے ذریعہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی نشرواشاعت کا بھی موقع ملے گا، چنانچہ اس عاجز کا پہلا سفر غالبا 2002 یا 2003 میں ہوا تھا اور اس کے بعد پھر وقتا فوقتا مختلف اوقات میں اسفار کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران برطانیہ کے مختلف شہروں مانچسٹر، بریڈفورڈ، بلیک برن، ناٹنگھم، لیسٹر، برمنگھم، لندن، ساوتھ ویلز میں کارڈف اور اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا، اور گلاسگو تک جانے کا موقع ملا، الحمدللہ ان شہروں میں ذکر مراقبہ اور بیانات کا سلسلہ بھی جاری رہا، تاہم پھر 2005ء میں اس عاجز کے امریکہ سے پاکستان شفٹ ہوجانے کے بعد ان اسفار میں کچھ کمی آ گئی اور موجودہ سفر سے پہلے جو آخری سفر UK کا ہوا وہ 2016 میں ہوا تھا۔ اس دوران یہاں کے بعض احباب کی طرف سے دعوت کے باوجود بوجہ پروگرام ملتوی ہوتا رہا اور پھر کرونا کی وبا کی وجہ سے جو صورت حال پوری دنیا میں پیدا ہوئی اس نے سفر کو ویسے ہی دشوار تر بنادیا۔ اس مرتبہ جب سفر کا پروگرام فائنل ہوا تو مانچسٹر میں مقیم ہماری جماعت کے مخلص ساتھی عزیزالقدر آصف علی صاحب نے ٹکٹ بک کروانے کی بابت پوچھا تو عاجز نے ان سے کہا کہ بہتر ہے کہ سعودی ائر لائن کے ذریعہ بکنگ کروا لی جائے،
سعودی ائر لائن
سفر کے لئے سعودی ائر لائن کو ترجیح دینے کی سب سے اہم وجہ تو یہ کہ آتے یا جاتے ہوئے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور اس عاجز کو الحمدللہ یہ سہولت حاصل ہے کہ اس کے پاسپورٹ پر سعودی عرب کا ملٹی پل وزٹ ویزہ لگا ہوا ہے جس کی ہر پانچ سال کے بعد تجدید ہو جاتی ہے چناں چہ ہر سفر پر جاتے ہوئے دل میں یہ شدید تمنا ہوتی کہ سفر سے واپسی پر عمرہ کی ادائیگی اور مدینہ طیبہ میں حاضری کی سعادت بھی نصیب ہو جائے، سعودی ائر لائن پر سفر کی وجہ سے اس میں کافی سہولت ہوجاتی ہے اور بفضلہ تعالی بلا کسی استحقاق کے اللہ رب العزت اکثر اس فقیر محتاج کی قلبی تمنا اور دعاؤں کی لاج رکھتے ہوئے اپنے گھر اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی حاضری کی سعادت مرحمت فرما دیتے ہیں، حرمین شریفین کی حاضری کا یہ شوق اور ذوق بھی ہمیں اپنے محبوب شیخ مکرم دامت برکاتہم کی صحبت کی برکت سے ہی نصیب ہوا ہے ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم اپنی اکثر دعاؤں میں جس محبت اور ذوق و شوق سے حرمین کی حاضری کی دعائیں مانگتے ہیں اس سے سالکین کے دلوں میں وہاں کی حاضری کی طلب اور تمنا دو چند ہوجاتی ہے،
دوران پرواز نماز کا انتظام
دوسری وجہ یہ کہ سعودی ائر لائن کے جہازوں میں دوران پرواز بروقت نماز پڑھنے کی بہت عمدہ سہولت ہوتی ہے جس کے لئے انہوں نے جہاز میں مستقل نماز پڑھنے کی ایک جگہ مقرر کی ہوئی ہے جہاں با آسانی دو سے تین افراد بیک وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتے ہیں بلکہ اگر چاہیں تو باجماعت نماز بھی ادا کر سکتے ہیں، نماز پڑھنے کی اس جگہ پر نصب اسکرین پر جہاز کی کرنٹ لوکیشن، خانہ کعبہ کی درست سمت بتانے کیلئے قبلہ نما اور پنج وقتہ نمازوں کے اوقات مستقل ڈسپلے ہو رہے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ سعودی ائر لائن کے اکثر جہازوں کے جو ٹوائلٹ ہیں ان
میں پانی سے استنجا کرنے اور پھر وضو کرنے کا بہت بہتر انتظام ہوتا ہے خصوصا استنجا کیلئے ایک بٹن کے ذریعہ پانی اس انداز سے فلش کے اندر گرتا ہے کہ جس سے با آسانی طہارت حاصل ہو جاتی ہے، یہ عاجز گزشتہ تقریبا تیس سال سے متواتر ہوائی جہاز کے ذریعہ اسفار کر رہا ہے عاجز کی معلومات اور مشاہدہ کے مطابق نماز پڑھنے کی ایسی عمدہ سہولت فی الحال کسی دوسری ائرلائن میں اب تک میسر نہیں ہے،
با کمال لوگ لاجواب سروس
مجھے یاد ہے کہ ابتدائی سالوں میں سفر کیلئے ہمیشہ پہلی ترجیح اپنی قومی ائرلائن PIA ہی ہوا کرتی تھی اور واقعی اس زمانہ میں PIA کی سروس اور سہولت کا ایک اپنا بین الاقوامی معیار تھا نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک کے مسافر بھی پی آئی اے کے ذریعہ سفر کرنا پسند کرتے تھے اور اس کا سلوگن بھی “باکمال لوگ لاجواب سروس” تھا، لیکن اس کے بعد پھر “بوجہ” ہماری اس قومی ائرلائن کا نہ صرف معیار زوال پذیر ہوتا چلا گیا بلکہ کئی اہم ترین روٹس بھی اس سے چھنتے چلے گئے جس کی وجہ سے مجبورا سفر کیلئے دوسری ائر لائنز کو اختیار کرنا پڑ گیا، تاہم خواہش اور دعا اب بھی یہی ہے کہ اللہ تعالی ہماری اس قومی ائرلائن بلکہ تمام ملکی اور قومی اداروں کو پھر سے ترقی اور بلندی کی اسی سطح پر لے جائے جو کسی زمانے میں ان کی پہچان ہوا کرتی تھی۔