https://edarulirfan.com/wp-content/uploads/2021/05/services-head-1.png

Khatam e Nabuwwat Conference

شیخ المشائخ محبوب العلماء و الصلحاء حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم کی مینار پاکستان لاہور میں منعقدہ عظیم الشان ختم نبوت گولڈن جوبلی کانفرنس میں شرکت

 

الحمدللہ اللہ رب العزت نے ہمارے حضرت جی پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ کو ہند و پاک کے علماء صلحاء اور دین کے مختلف شعبوں سے وابستہ احباب اور حلقوں میں جو ہمہ گیر مقبولیت اور محبوبیت عطا فرمائی ہے وہ ہرگز محتاج تعارف نہیں اور وقت کے جید علماء ومشائخ کی طرف سے تجویز کیا گیا “محبوب العلماء والصلحاء” کا لقب صحیح معنوں میں حضرت جی دامت برکاتہم کی ہر دلعزیز اور محبوب شخصیت پر ہی سجتا اور جچتا ہے ، حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کو اللہ تعالی نے ایسی وسعت قلبی کی نعمت عطا فرمائی ہے کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی ترویج اور نشر واشاعت کے سلسلہ میں کثرت سے ملکی اور بین الاقوامی اسفار اور اپنے عظیم الشان ادارے معہد الفقیر الاسلامی جھنگ کی شدید مصروفیات کے باوجود اہل حق کی جتنی بھی دینی تحریکیں اور جماعتیں ہیں خواہ وہ دعوت وتبلیغ کے عنوان سے کام کرنے والے ہوں یا ختم نبوت کے عظیم الشان عنوان سے محنت کرنے والی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہو یا اقامت دین کی کوششیں ہوں یا پھر سیاست کے میدان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی محنت اور جدوجہد کرنے والی علماء حق کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء اسلام ہو ۔۔۔

حضرت جی دامت برکاتہم ان سب جماعتوں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ قلبی وابستگی رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنی دعاؤں اور توجہات میں ان کو یاد رکھتے ہیں بلکہ عملی میدان میں بھی دامے درمے سخنے ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ان کے پروگرامز اور کانفرنسوں میں بنفس نفیس شرکت بھی فرماتے ہیں اور یہ قبولیت اور مقبولیت صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے علماء میں بھی یکساں موجود ہے ، چند سال پہلے حضرت جی دامت برکاتہم کے دارلعلوم دیوبند کے دورہ کے موقع اہل دارلعلوم دیوبند کے قلبی جذبات کی انتہائی خوبصورت ترجمانی جو (مولانا ندیم واجدی صاحب مدیر ماہنامہ ترجمان دیوبند) نے درج ذیل اپنے ایک مضمون میں کی اس کو پڑھ کر کچھ اندازہ ہو جائے گا ،

اُس موقع پر مولانا ندیم واجدی صاحب لکھتے ہیں ۔۔۔

کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ صوفی بزرگ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ العالی ان دنوں ہندوستان تشریف لائے ہوئے ہیں اپنے دورہ ہند کے تیسرے مرحلے میں وہ دیوبند بھی تشریف لائے اس دوران انہوں نے متعدد چھوٹی بڑی مجلسوں سے خطاب کیا ان کی تشریف آوری کے لوگ شدت سے منتظر تھے اور دور دور سے سفر کر کے ان کی ایک جھلک پانے کے لیے اور ان کی تقریریں سننے کے لیے دیوبند پہنچے ہوئے تھے،

مزید لکھتے ہیں ۔۔۔

یوں تو دیوبند میں دارالعلوم کی برکت سے سال کے 12 مہینے دینی اور علمی شخصیتوں کی آمدورفت رہتی ہے مگر حضرت شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ کی آمد کا واقعہ اپنے آپ میں بالکل انوکھا واقعہ ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس طرح آئے جیسے صحرا کی سخت دھوپ میں ہوا کا خوشگوار جھونکا میسر آ جائے اور وہ روح میں اتر کر اندر تک شاداب و سرشار کر جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا اہل دیوبند کو یہ چار تاریخی دن مدتوں یاد رہیں گے اور دیر تک ان کے روحانی وجود کی مہک دیوبند کی فضاؤں میں رچی بسی رہے گی اس دور قحط الرجال میں حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ کا وجود کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں وہ اس امت کا ایک زندہ معجزہ ہیں انہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے اور ان کی باتیں سن کر دلوں میں سوز اور تڑپ پیدا ہوتی ہے یہ صرف میں ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تقریبا یہی جملے ہر اس شخص کی زبان پر ہیں جس نے ان چار دنوں میں سے کوئی ایک لمحہ بھی ان کے ساتھ گزار لیا ہے یا ان کی باتیں دل کے کانوں سے سن لی ہیں۔۔۔

ماضی قریب میں جو کام سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے تھانہ بھون کی خانقاہ میں کیا ان کے بعد جو کام ان کے باکمال خلفاء حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہئی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی پھر ان حضرات کے خلفاء شیخ الہند مولانا محمود الحسن گنگوئی شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور ان حضرات کے بالواسطہ یا بلاواسطہ جانشینوں نے کیا آج وہی کام پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ انجام دے رہے ہیں حضرت پیر صاحب کی زبان کی تاثیر بہت ہے تقریریں تو بہت لوگ کرتے ہیں گھنٹوں گھنٹوں کرتے ہیں الفاظ کا سماں باندھ دیتے ہیں لیکن جب لوگ مجلسوں سے اٹھتے ہیں تو ان کے پلے کچھ بھی نہیں ہوتا جیسے آتے ہیں ویسے ہی رخصت ہو جاتے ہیں حضرت پیر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عام سی سادہ سی باتیں اس سوچ کے ساتھ کرتے ہیں کہ دل پر اثر انداز ہوتی ہیں ہرچہ از دل خیزد بر دل ریزد کا صحیح مشاہدہ حضرت پیر صاحب کی تقریریں سن کر ہوا وہی باتیں جو بار بار کتابوں میں پڑھیں وہی قصے جو زندگی بھر پڑھتے اور سنتے رہے ان کی زبان سے سنے تو بالکل نئے معلوم ہوئے ان کی آواز کا سوز اور دل کا اخلاص سننے والے کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے ۔۔۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہزاروں کا مجمع تقریر کے دوران بالکل ساکت اور صامت ہو جائے اور ماحول پر ایسا سناٹا طاری ہو جائے کہ سوئی گرے تو اس کے گرنے کی آواز سنائی دے حضرت پیر صاحب جب تقریر شروع کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور بد شوق سے بد شوق انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب تقریر شروع ہوئی اور کب ختم ہو گئی دو اڑھائی گھنٹے کس طرح گزر گئے ۔۔۔

دیوبند میں ان کے تین بڑے اجتماعات ہوئے اور تینوں میں حاضرین کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے اگر یہ کہا جائے کہ اجتماع گاہوں میں سر سے سر بج رہا تھا تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا تینوں جگہ انہوں نے الگ الگ موضوع پر خطاب کیا لیکن ہر موضوع کا تعلق ایک ہی موضوع سے تھا جسے ہم تصوف طریقت سلوک اور احسان کہتے ہیں وہ آئے اور سب کو عشق الہی کی روشنی دکھلا کر چلے گئے اب یہ ہم پر موقوف ہے کہ ہم اس روشنی میں کب تلک چلتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم یہ بات اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو سبق شیخ نے ہمیں یاد دلایا اسے ہم کب تک یاد رکھتے ہیں، یہ تھے اہل

دیوبند کے ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم کے بارے میں تاثرات ۔

حضرت جی دامت برکاتہم کو اللہ تعالی نے درد دل کی ایسی نعمت عطا فرمائی ہے کہ ہر دینی تحریک کے کام کو اپنا کام سمجھتے ہیں اور ہر ایک کے لیے ہر طرح سے اپنے آپ کو حاضر رکھتے ہیں گزشتہ کئی سالوں سے اکابرین ختم نبوت بالخصوص حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم کی مخلصانہ دعوت پر اپنی پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باوجود حضرت جی دامت برکاتہم چنیوٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں بنفس نفیس شریک ہوتے رہے اور ختم نبوت کے موضوع پر انتہائی خوبصورت انداز میں مدلل اور مفصل بیانات بھی فرماتے رہے چند سال پہلے کراچی کی ختم نبوت کانفرنس میں بھی اپنی بیماری کے باوجود سفر فرما کر تشریف لے گئے اور بہت ہی عمدہ اور خوبصورت بیان ختم نبوت کے عنوان پر فرمایا جو شرکاء اجتماع نے بہت ذیادہ پسند کیا۔۔۔

ختم نبوت گولڈن چوبلی کانفرنس کے موقع پر حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کو اکابرین ختم نبوت کی طرف سے بھی شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی اور قائد جمعیت شحضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم تو بنفس نفیس اپنے احباب کے ہمراہ خود چل کر اسلام اباد میں حضرت جی دامت برکاتہم جہاں رہائش پذیر تھے تشریف لے گئے اور پرزور اصرار کے ساتھ حضرت جی کو گولڈن جوبلی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اس بات سے ان حضرات کے حضرت جی دامت برکاتہم کی شخصیت پر کامل اتفاق اور اعتماد کا پتہ چلتا ہے اور ماضی قریب میں احباب ختم نبوت اور دیگر دینی حلقوں میں حضرت مولانا خان محمد صاحب نوراللہ مرقدہ کی ذات گرامی کو جو مرکزی حیثیت حاصل تھی الحمدللہ اب وہ مرکزیت کی نسبت ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم کی ذات میں منتقل ہوگئی ہے چناں چہ حضرت جی دامت برکاتہم نے اپنی علالت پیرانہ سالی اور مختلف عوارض کے باوجود ہر دو طرف سے ملنے والی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے نہ صرف یہ کہ گولڈن جوبلی کانفرنس میں شرکت فرمائی بلکہ شدید گرمی اور حبس کے باوجود کانفرنس کے اختتام تک شریک رہے اور اپنی بھرپور روحانی توجہات اور تصرفات کے ساتھ پورے مجمع اور مقررین کی طرف متوجہ رہ کر ان کے قلوب کو گرماتے رہے،

اگرچہ ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم قطب ارشاد ہیں اور کانفرنس کا مجمع بظاہر حضرت جی دامت برکاتہم کے اس تاریخی موقع پر بیان سننے کا منتظر بھی رہا لیکن ماضی و حال میں ایسے بڑے مواقع پر اکثر ہمارے بڑے اکابر کا یہ معمول رہا ہے کہ یہ حضرات بظاہر خاموش رہ کر اللہ تعالیٰ نے روحانی تصرفات اور قلبی توجہات کی جو نعمت ان کو عطا فرمائی ہے اس کی تاثیر کے ذریعہ مجمع کے قلوب کو گرمایا کرتے ہیں اور پیغام حق کی قبولیت کی استعداد دلوں میں پیدا کرنے کا خاموش ذریعہ بنتے ہیں، چناں چہ بستی نظام الدین دھلی کے تبلیغی مرکز میں حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کا فجر کی نماز کے بعد کا بیان انتہائی پرتاثیر اور عجیب و غریب علمی نکات سے مزین ہوتا تھا اور پورے مجمع کو تڑپا کر رکھ دیتا تھا اس عاجز نے کہیں پڑھا تھا کہ مولانا عمر پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمایا کہ میرے بیان کے دوران ۔۔۔

حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رح آنکھیں بند کر کے خاموش بیٹھے رہتے اور اس دوران پورے مجمع کو توجہات دیتے رہتے تھے اور ان کی توجہات کی برکت کی وجہ سے میرے بیان کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ تاثیر پیدا فرما دیا کرتے تھے،

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنے شیخ کامل کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پوری زندگی ان کی مبارک تعلیمات اور قیمتی نصائح وارشادات پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

دعاگو و دعاجو


فقیر محمد سہیل عرفان نقشبندی

دارالعرفان ایگریکس ٹاون لاہور

Begin typing your search above and press return to search.